اہور (کامرس رپورٹر) لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطالبے پر سٹیٹ بنک کی جانب سے مارک اپ ریٹ میں کمی خوش آئند ہے۔ اس فیصلے سے قرضے کی لاگت میں کمی، صنعتی ترقی کے فروغ اور ملک میں تجارت و سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا ہو گا۔ تاہم اسے سنگل ڈیجٹ پر لایا جائے۔ لاہور چیمبر کے صدر میاں ابوذر شاد اور نائب صدر شاہد نذیر چودھری نے اپنے بیان میں اس فیصلے کو کاروباری برادری کو درپیش معاشی چیلنجز سے نمٹنے کی جانب ایک مثبت قدم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ مارک اپ ریٹ طویل عرصے سے ایک بڑی رکاوٹ رہی تھی جس کی وجہ سے کاروبار خاص طور پر ایس ایم ایز کو فنانس تک رسائی حاصل نہیں تھی۔ لاہور چیمبر کے مطالبے پر مارک اپ ریٹ بائیس فیصد سے کم کر کے تیرہ فیصد اور اب مزید کم کیا گیا جس سے کاروباری اداروں کو سازگار شرائط پر قرض تک رسائی فراہم ہوگی جس سے پیداواریت میں اضافہ ہوگا اور معاشی استحکام کو فروغ ملے گا۔ لاہور چیمبر کے عہدیداروں نے حکومت اور مرکزی بنک پر زور دیا کہ وہ معیشت کو مزید مضبوط کرنے کے لیے اضافی اقدامات کریں۔ ان میں توانائی کے اخراجات کو کم کرنے کے لیے اقدامات، کاروباری اداروں پر مالی بوجھ کم کرنے کے لیے ٹیکس اصلاحات اور چھوٹے و درمیانے درجے کے کاروباروں کے لیے ہدف شدہ مدد شامل ہیں۔ یونائیٹڈ بزنس گروپ (یو بی جی) کے سرپرست اعلیٰ ایس ایم تنویر نے پالیسی ریٹ میں صرف 100 بیسز پوائنٹس کی کمی کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کم از کم 200 بیسز پوائنٹس کی کمی متوقع تھی۔ پاکستان کی معیشت تین سال کی مندی کے بعد سنبھل رہی ہے، اس دوران معاشی سرگرمیاں ٹھپ ہوگئیں اور بنکوں میں 32 کھرب روپے کی سرمایہ کاری کی گئی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ حکومت کو اب معاشی ترقی اور ترقی کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا چاہیے۔ تنویر نے کپاس کی ابتدائی کاشت کو فروغ دینے کے لیے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) کے فعال نقطہ نظر کی تعریف کی اور مقامی طور پر تیار کردہ خوردنی تیل کے لیے اقدامات پر زور دیا۔ ادھر صدرایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے آگاہ کیا ہے کہ پاکستان کی کاروباری، صنعتی اور تاجر برادری مانیٹری پالیسی سے مایوس ہے کیونکہ سٹیٹ بنک نے پیر کوصرف 100 بیسس پوائنٹ کی ناکافی کمی کا اعلان کیا ہے۔ واضح رہے کہ پہلے کی طر ح اب بھی شرح سود بنیادی افراط زر کے مقابلے میں بھاری پریمیم پر مبنی ہے۔ اس وقت حکومت کے اپنے اعداد وشمار کے مطابق مہنگائی کی شرح دسمبر 2024 میں 4.1 فیصد رہی۔ لیکن، پالیسی ریٹ کی شرح ابھی بھی صرف 12.0 فیصد تک گرائی گئی ہے اور یہ بنیادی افراط زر کے مقابلے میں 790 بیسس پوائنٹس کے پریمیم کی عکاسی کرتی ہے۔ صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے مزید کہا کہ تمام صنعتوں اور شعبہ جات کے ساتھ غور و خوض کے بعدایف پی سی سی آئی نے مانیٹری پالیسی کو معقول بنانے کے لیے پیر کی مانیٹری پالیسی کمیٹی (MPC) کے اجلاس میں 500 بیسس پوائنٹس کی فوری اور سنگل سٹروک کمی کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ اسے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) کے وژن اور اقتصادی و برآمدات کی ترقی کے لیے وزیر اعظم کے وژن کے مطابق بنایا جانا چاہیے۔ عاطف اکرام شیخ نے ایپکس باڈی کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ پاکستان میں کاروبار کرنے کی لاگت بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں کاروبار کرنے میں آسانی اور فنانس تک رسائی برآمدی منڈیوں میں پاکستان کے تمام حریفوں کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔ حکومت کو کاروباری برادری کو پاکستان میں اپنی سرمایہ کاری کی پلاننگ کے حوالے سے دو اہم سوالوں کے جوابات فراہم کرنے چاہیئں: (i) نئے آئی ایم ایف پروگرام کو جاری رکھنے کے لیے اس سے کون سے اقدامات کے وعدے کیے جا رہے ہیں، وہ کیسے پورا ہوں گے اور وہ اقدامات پاکستان میں کاروبار کرنے کی لاگت کو کس طرح متاثر کریں گے (ii) پاکستان کو تیز رفتار معاشی ترقی کی شاہراہ پر واپس لانے کے لیے کیا حکومت کچھ اقدامات کر رہی ہے اور آیا حکومت ان پر کب اور کس طرح کاروباری برادری کو اعتماد میں لینے کا ارادہ رکھتی ہے؟
|
|