راولپنڈی(رپورٹ /راحت منیر)راولپنڈی کا اہم ترین میگا پراجیکٹ نالہ لئی گزشتہ18برسوں سے تعطل کا شکار ہے ۔آج تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا۔ہر باربدلتےفیصلوں کے باعث منصوبہ کی لاگت کا تخمینہ بڑھتے بڑھتے صرف142ارب روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔ آج تک یہ ہی واضح نہیں ہوسکا کہ منصوبہ پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کے تحت بنے گا۔وفاق و پنجاب کی شیئرنگ پر بنے گا۔نو کلو میٹر ہوگا۔17کلو میٹر ہوگا یا19کلو میٹر ہوگا۔کمرشل زون ہوں گے،سوریج ٹرنک لائن ساتھ ہوگی،سڑک ہو گی یا ایکسپریس وے ہوگا۔جبکہ نالہ لئی ہر سال مون سون میں راولپنڈی کے باسیوں بالخصوص نشیبی علاقوں کے مکینوں کیلئے دکھ و غم کے پہاڑتوڑتا ہے۔ہر حکومت اور انتظامی سیٹ اپ میں اس کو بنانے اور راولپنڈی کو بچانے کے نعرے لگتے رہے ہیں۔اس کے باوجود ہر سال شہریوں کی اربوں روپے کی املاک کے نقصان کےساتھ جانوں کا ضیاع بھی جاری ہے۔زرائع کے مطابق منصوبہ مختلف سیاسی کھینچا تانیوں اور انتظامی بھول بھلیوں کا شکار ہوکرہر بار سرد خانے میں چلا جاتاہے۔17ارب روپےمیں تیار کیا گیا منصوبہ کبھی46ارب روپے،کبھی65ارب روپے اور کبھی دو سو ارب روپےکاہوتا رہاہے۔آخری تخمینہ کے مطابق 159اعشاریہ543ارب روپے درکار ہیں۔زرائع کے مطابق نالہ لئی کی پہلی باضابطہ سٹڈی جاپان کی جائیکا نے2003میں کی تھی۔ زرائع کے مطابق لئی ایکسپریس وے اینڈ فلڈ چینل پرپراجیکٹ پر31 مارچ 2007کو کام شروع کیا گیا تھا۔ایکنک نے 17اعشاریہ76ارب روپے کے منصوبہ کی منظوری دی تھی۔وفاقی اور پنجاب حکومت کی ففٹی ففٹی شیئرنگ ہوناتھی۔وفاقی حکومت نے منصوبہ کیلئے 950 ملین روپے جبکہ پنجاب حکومت نے 310 اعشاریہ 600 ملین روپے فراہم کئے تھے۔جس میں سے ایف ڈبلیو او کو228اعشاریہ128ملین روپے موبلائزیشن جبکہ35اعشاریہ152ملین روپے منصوبہ کے ڈیزائن کیلئے دئیے گے تھے۔ڈسٹرکٹ پرائس اسسمنٹ کمیٹی نے منصوبہ کیلئے17مواضعات میں 1250 کنال3مرلہ اراضی ایکوائر کرنے کیلئے قیمت کا تعین کیا تھا۔جس کے بعد681ا عشاریہ526 ملین روپے آر ڈی اے کے لینڈ ایکوزیشن کلیکٹر کو دئیے گے ۔13جنوری2011کو پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی ہدایت پر منصوبہ بند کردیا گیا تھا۔باخبرزرائع کے مطابق ایف ڈبلیو او کو موبلائزیشن کیلئے228اعشاریہ128ملین کی ادائیگی کے بعد اس نے مشنیری،افرادی قوت اور میٹریل فیز ون سائیٹ مری روڈ تا گوالمنڈی پیکج پر پہنچادی تھیں۔ یہ رقم ایف ڈبلیو او نے پانچ اقساط میں واپس کرنی تھی۔جو تاحال واپس نہیں ہوئی ہے۔ایف ڈبلیو او کو ڈیزائن کی مدمیں262اعشاریہ140ملین روپے میں سے35اعشاریہ152ملین روپے ادا کئے گئے تھے۔ایف ڈبلیو او نے مری روڈ تا گوالمنڈی جو ڈیزائن نیسپاک کو دیا تھا۔اس پر دونوں میں اتفاق نہیں ہوسکا تھا۔منصوبہ روکنے پر ایف ڈبلیو او کا3208 اعشاریہ240ملین روپے کاکلیم تھا۔جو ہائی کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے۔2019میں ایک بار پھر نالئی منصوبہ کو پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ کے تحت 55 ارب روپے میں لانچ کیا گیا۔ایڈوائزر نیسپاک اور کے پی ایم جی تھے۔2021میں ایکنک نے نالہ لئی منصوبہ کی لینڈ ایکوزیشن کیلئے24ارب 96 کروڑ 70 لاکھ روپے کا منصوبہ منظورکیا تھا۔ جس کے تحت چھ ارب روپے مکانات،کمرشل ڈھانچے اور دیگر کیلئے رکھے گے تھے۔یوٹیلیٹی سروسز کی منتقلی کیلئے 25 سو ملین روپے،مانیٹرنگ اینڈ ایولیشن کیلئے20ملین روپے ، 750کنال زمین خریداری کیلئے16 ارب 90لاکھ روپے،انتظامی اخراجات6اعشاریہ70ملین روپے جبکہ دیگر متفرق اخراجات کیلئے200ملین روپے مختص کئے گے ۔پی اینڈ ڈی ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے منصوبہ کی انتظامی منظوری بھی دی۔پھر فیصلہ بدل گیا اور نالہ لئی ایک بار پھر سالانہ ترقیاتی منصوبے کا حصہ بنایا گیا جس کیلئے40فیصد اے ڈی پی جبکہ60فیصد پی ایس ڈی پی سے مختص کرنے کا فیصلہ ہوا۔اے ڈی پی کے تحت20ملین روپے جاری ہوئے۔2022میں فیصلہ کیا گیا کہ ڈی جی آر ڈی اے،سی ڈی اے اور ڈائریکٹر اے آئی سی پر مشتمل جوائنٹ ورکنگ گروپ بنایاجائے۔159اعشاریہ543اربروپےکا منصوبہ تین فیز میں مکمل کرنے کی سفارشات پیش کیں گئیں ۔ جس کے مطابق پہلے فیز میں9اعشاریہ8کلو میٹر کٹاریاں تا عمار چوک تک لینڈ ایکوزیشن اور منسلک امور،فلڈ چینل ،ٹرنک سیوریج و سڑک پر لاگت کا تخمینہ90اعشاریہ 977ارب کا دیا گیا۔دوسرے فیز عمار چوک تا لاہور ہائی کورٹ6اعشاریہ2کلو میٹر لینڈ ایکوزیشن منسلک امور،فلڈ چینل،ٹرنک سیوریج،سڑکپر لاگت کا تخمینہ51اعشاریہ 066ارب کا دیا گیا ۔ تیسرے فیز میں لاہور ہائی کورٹ سے گورکھپور تک ٹرنگ سوریج اور ٹریٹمنٹ پلانٹ کی سفارش کی گئی جس پر لاگت کا تخمینہ17اعشاریہ500ارب روپے دیا گیا ۔ 2020میں منصوبہ کی ای آئی اے رپورٹ میں منصوبہ کی کل لاگت85ارب روپے بنائی گئی تھی۔جس میں تعمیراتی اخراجات62اعشاریہ5ارب روپے تھے ۔ 368صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ لینڈ ایکوزیشن کیلئے ایک ہزار711کنال اراضی درکار ہے جس میں سے675کنال آر ڈی اے پہلے ہی ایکوائر کرچکا ہے۔ذرائع کیمطابق آج تک منصوبہ کی تعمیر نہ ہونا ایک معمہ بن چکا ہے۔جس کے باعث ایک کھرب روپے سے زیادہ کا نقصان قومی خزانے کو پہنچے گا۔منصوبے کو فوری پایہ تکمیل |
|