اولپنڈی (نمائندہ جنگ) راولپنڈی میں گزشتہ چندروز کے دوران وقفے وقفے سے ہونے والی معمول کی بارشوں سے شہر کے مختلف نالوں میں آنے والی طغیانی سے نشیبی علاقوں کے رہائشی خوف، تشویش میں مبتلا اور رات جاگنے پر مجبور ہیں ۔ نالہ لئی سمیت شہر کے مختلف علاقوں سے گزرنے والے چودہ کے قریب چھوٹے بڑے نالے تسلسل کے ساتھ ہونے والی تجاوزات اور باقاعدہ صفائی نہ ہونے کی وجہ سے اپنی اصل شکل کھو تے جا رہے ہیں اور ہر برس جانی اور مالی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ ہر سال مون سون میں جان لیوا حادثات اور کروڑوں روپے کے نقصانات کے بعد ایک طرف انتظامیہ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے ٹھوس اقدامات کی بات کرتی ہے تو دوسری جانب مقامی سیاسی قیادت متاثرین سے ملکر تعزیت اور ان کے نقصان کا ازالہ کرنے کی یقین دہانی بھی کرواتی ہے مگر نہ تو ٹھوس اقدامات ہوتے ہیں اور نہ نقصانات کا ازالہ ہوتا ہے اور مون سون گزر جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ شہر میں تجاوزات اور غیرقانونی تعمیرات میں انتظامیہ کے ساتھ ساتھ ہر دور کی مقامی سیاسی قیادت بھی مبینہ طور پر پوری طرح سے ملوث رہی ہے جس سے ان تجاوزات اور غیرقانونی تعمیرات کے باعث نظام زندگی متاثر ہوچکا ہے ۔ انتظامیہ کسی سطح پر بھی عملی قدم اٹھانے کو تیار نہیں۔ نالوں پر تجاوزات کے باعث گزشتہ دو چار روز کے دوران ہونے والی معمول کی بارشوں سے ہی ندیم کالونی، آریہ محلہ، محلہ امام باڑہ، محلہ پیر ہڑہ، موتی بازار، بوہڑ بازار، جامع مسجد روڈ سمیت دیگر بیشتر علاقوں سے گزرنے والے نالوں میں طغیانی اور سڑکوں پر پانی جمع ہونے سے لوگوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ شہر میں لاقانونیت کا یہ عالم ہے کہ تاج کمپنی سے فوارہ چوک جانے والی سڑک کے نیچے سے گزرنے والے نالے کے کناروں پر کمرشل تعمیرات کے بعد نالے پر باقاعدہ چھت ڈال دی گئی ہے ۔معلوم ہوا ہے کہ یہ سب کیا دھرا سابق حکومت کے ایک رکن اسمبلی کا ہے ۔ایسی صورتحال میں غیرمعمولی بارش ہونے پر صرف تباہی ہی آئے گی، پورے شہر سے گزرنے والا نالہ لئی جو اب صرف کاغذات میں ہی کئی سوفٹ چوڑی دکھائی دیتا ہے وہ اصل میں دونوں طرف تجاوزات کے باعث آدھا بھی نہیں رہا ۔ستم ظریفی یہ کہ تعمیراتی ملبے سمیت پورے شہر کا گند بھی اسی نالہ لئی میں پھینکا جاتا ہے لیکن انتظامیہ نے اس کی روک تھام کیلئے دفعہ 144کے نفاذ کے سوا آج تک کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ صرف چند مقامات پر یہ بورڈ ضرور آویزاں ہیں کہ لئی میں گند پھنکنے والوں کیخلاف کارروائی ہوگی جو عملاً آج تک نہیں ہوئی۔ بعد ازاں اسی گند کو اٹھانے کیلئے سالانہ پانچ چھ کروڑ روپے کا ٹھیکہ دیا جاتا ہے۔ نالے کی صفائی کیسے ہوتی ہے یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں |
|